
بیجنگ نے زمین کی نایاب دھاتوں کی برآمدات کو سخت کر دیا۔
یقین کریں یا نہیں، چین نے امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعطل میں ایک خفیہ ہتھیار کا پردہ فاش کیا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، وہ ہتھیار نایاب زمینی دھاتیں ہیں۔ ان کی برآمدات کو محدود کرنے سے امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
چین کی حکومت کا بعض نادر زمینی عناصر کی برآمدات کو محدود کرنے کا فیصلہ امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں ایک بڑے حربے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ معاشی جنات کی جنگ باضابطہ طور پر شروع ہو چکی ہے۔
نئے برآمدی کنٹرول سات نادر زمینی عناصر پر لاگو ہوتے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ پابندیاں ہائی ٹیک صنعتوں کے لیے اہم سپلائی چینز کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔ اگر تنازعہ بڑھتا ہے، تو ماہرین کو ایک ممکنہ عالمی بحران کا خدشہ ہے، جس میں اہم شعبوں، جیسے الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور دفاع کو شدید قلت کا سامنا ہے۔
اس وقت، چین نایاب زمینی عناصر کا دنیا کا سب سے بڑا سپلائر ہے، جو متواتر جدول سے 17 اسٹریٹجک عناصر برآمد کرتا ہے۔ یہ ملک عالمی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد حصہ بناتا ہے۔ بیجنگ اس اسٹریٹجک فائدے سے بخوبی واقف ہے اور اسے واشنگٹن کے ساتھ ماضی کے تجارتی تنازعات میں استعمال کر چکا ہے۔ موجودہ پابندیاں پہلے ہی گیلیم، جرمینیم، گریفائٹ اور اینٹیمونی کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس فہرست کو وسعت دینے سے ٹیرف کی بڑھتی ہوئی جنگ میں چین کا ہاتھ مزید مضبوط ہو گا۔
یاد رہے کہ مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر محصولات کو دوگنا کرتے ہوئے انہیں 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا تھا۔ اپریل کے شروع میں، اس نے 34% ٹیرف کے نئے دور کی منظوری دی۔ بیجنگ نے تمام امریکی اشیا پر محصولات کے مطابق جواب دیا۔ مزید برآں، چین نے امریکی معیشت کو نشانہ بناتے ہوئے نئی سرمایہ کاری کی پابندیاں عائد کیں۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس قسم کے معاشی شو ڈاون میں کوئی نہیں جیتتا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر تجارتی جنگ جاری رہی تو امریکہ کو 55.6 بلین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو سکتا ہے۔